برسلز (پ۔ر)
یورپ میں کشمیرکونسل ای یو، انٹرنیشنل کونسل فار ہومن ڈیولپمنٹ (آئی سی ایچ ڈی) اور آن لائن مجلہ اوورسیز ٹریبون کے مشترکہ زیراہتمام ایک بین الاقوامی ویبینار کے مقررین نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
ویبینار انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقد کیا گیا جس میں انسانی حقوق سے متعلق مختلف موضوعات پر بات کی گئی جن میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حقوق، بھارت میں اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق کی پامالیاں خصوصاً مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر یورپ کا موقف، انسانی سیکورٹی اور انسانی حقوق کے عالمی معاہدے اور اعلامیوں پر بحث و گفتگو کی گئی۔
مقررین میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی بین الاقوامی علمبردار اور سیاسی نفسیات کی ماہر مس مریان لوکس، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید، سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر سید سبطین شاہ، وارسا یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر روشن اکبر اور نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے استاد منور علی مہر شامل تھے۔
مقررین نے زور دیا کہ بین الاقوامی برادری کشمیریوں کے اور بھارتی کی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور یورپی یونین پر زوردیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔
کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سات دہائیوں سے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر موجود ہے اور آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن افسوس ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلریشن کے مقاصد ابھی تک حاصل نہیں کئے جاسکے۔ انہوں نے بتایاکہ اس وقت دنیا میں بلاروک ٹوک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی کوششیں ثمربخش ثابت ہوں گی۔
علی رضا سید نے انسانی حقوق پر یورپی یونین کے موقف کے بارے میں کہاکہ یورپی یونین انسانی حقوق کے مسلمہ اصولوں پر قائم ہے اور ہم یورپی فورموں پر انسانی حقوق کے مسائل اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ تمام دنیا میں سیاسی و معاشی مفادات قابل توجہ ہیں لیکن ان مفادات کو انسانی حقوق پر ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ یورپی حکام انسانی حقوق پر خاص طور پر توجہ دیتے ہیں اور وہ اس سے پہلے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بند ہونی چاہیں اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اقدامات ہونے چاہیے۔یہ وقت ہے کہ یورپی یونین جنوبی ایشیاء بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرے۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی بین الاقوامی علمبردار اور سیاسی نفسیات کی ماہر مس ماریان لوکس نے کہاکہ اگرچہ بھارت اپنے نظام کو جمہوریت کہتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جمہوریت کہاں ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح اس متنازعہ علاقے کے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ یہ آسان نہیں اور خاص طور پر ایسے حالات میں جب بھارت نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اثاثے ہی منجمند کردیے ہیں۔ اس وقت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس خطے میں موجود لوگوں کی آواز کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماریان لوکس نے کہاکہ میں سیاسی رہنماؤوں اور سفارتکاروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں موجود لوگوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں سماجی حوالے سے وہاں انسانی حقوق کی علمبردار پروینا آھنگر اور سیاسی حوالے سے یاسین ملک اور زیر حراست دیگر سیاسی قیادت موجود ہے۔ ہمیں ان کی آواز کو اٹھایا جانا چاہیے۔ افسوس ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کا موضوع لبرل کیپیٹل سوسائٹی کے ایجنڈے میں سب سے نیچے ہے لیکن اگر ہم یکجہتی اور اتحاد کے ذریعے کام کریں تو انسانی حقوق کے موضوع کو اوپر لاسکتے ہیں۔
سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر سید سبطین شاہ جنہوں نے ویبینار کے دوران نظامت کے فرائض بھی انجام دیے، نے اپنے ابتدائی کلمات کے دوران انسانی حقوق کا تعارف پیش کیا اور خاص طور پر انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایاکہ تیس شقوں پر مشتمل انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن میں جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۴۸ میں منظور کیا تھا، پہلی دفعہ تسلیم کیا گیا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے فکری آزادی حاصل ہے۔اس کے بعد کے عشروں میں انسانی حقوق کے متعلق مزید معاہدے اور اعلامیے سامنے آئے۔
اس آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے وارسا یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر شیخ روشن اکبر نے بتایاکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی بات باہر کی دنیا تک نہیں پہنچ رہی۔ بھارتی میڈیا اور ریاست کا میڈیا حکومت کا حمایت یافتہ ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز رہتی دنیا تک نہیں پہنچاتا بلکہ اس کو روکتا ہے۔ روشن اکبر جو کچھ عرصہ پہلے مقبوضہ کشمیر میں چند ہفتے قیام کے بعد واپس یورپ آئے ہیں، نے بتایاکہ پانچ اگست ۲۰۱۹ کے بعد صورتحال بہت تبدیل ہوگئی۔لوگوں پر پابندیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ان کے حقوق کھلم کھلا پامال ہورہے ہیں۔
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے استاد اور ریسرچ سکالر منور علی مہر نے انسانی حقوق اور انسانی سیکورٹی کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایاکہ انسانی سیکورٹی قومی سلامتی کا اہم جز ہے اور اس کے مختلف ذاتی، معاشرتی اور سیاسی پہلو ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے بارے میں کہاکہ دہشت گردی نے پاکستان میں انسانی سلامتی کے تمام پہلؤوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس سے لوگوں کے معاشی حالات کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
وارسا یونیورسٹی کے ایک اور ریسرچ سکالر نے بتایاکہ بھارت کی موجودہ حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے معاشرے میں نفرت کو ہوا دے رہی ہے۔ حکومت میں شامل عوامل ہندو برتری پر زور دیتے ہیں جس سے معاشرہ تقسیم ہورہا ہے۔ مودی حکومت ہندوستان کے تاریخی حقائق کو مسخ کررہی ہے۔ مختلف تاریخی شہروں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں اور ثقافتی ورثا کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ لوگوں کے حقوق سرعام پامال ہورہے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو دہشت گردوں کا حامی و ہمدرد قرار دیا جا رہاہے۔
ویبینار کے دوسرے سیشن میں سوالات کے جوابات کی نشست ہوئی جس کے دوران انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی اداروں اور عالمی برادری کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مباحثہ ہوا۔ اختتام پر اس بات پر زور دیا کہ انسانی حقوق کے علاوہ انسان حقوق کے حوالے سے ہرانسان کی ذمہ داریاں بھی بہت اہم ہیں۔ انسان کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔